Munir Niazi Poetry
Munir Niazi Poetry

100+ Best Munir Niazi Poetry in Urdu

منیر نیازی کون ہیں؟

منیر نیازی (Munir Niazi) پاکستان کے مشہور شاعر تھے جنہیں اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں کلام کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا اصل نام منیر احمد خان تھا اور وہ 9 اپریل 1923ء کو

ہشیارپور (اب بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ انقلابِ ہندوستان کے بعد وہ انڈیا سے پاکستان لوٹے اور ساہیوال میں میٹرک کیا، پھر گورنمنٹ صادق ایجرتن کالج بہاولپور سے انٹرمیڈیٹ اور

سنگھ کالج لاہور سے بی اے کیا ۔

وہ 1960 میں “المثال” کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کرنے کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سے بھی وابستہ رہے ۔ منیر نیازی نے فلموں کے لیے نغمے بھی لکھے جو 1960 کی دہائی میں بے حد مقبول ہوئے، جیسے “Uss Bewafa Ka Shehar Hai Aur Hum Hain Dosto” فلم Shaheed (1962) میں

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

Munir Niazi Poetry

مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

Munir Niazi Poetry

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

Munir Niazi Poetry

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

Munir Niazi Poetry

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

Munir Niazi Poetry

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

Munir Niazi Poetry

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

Munir Niazi Poetry

محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی

Munir Niazi Poetry

خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو

Munir Niazi Poetry

خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے

Munir Niazi Poetry

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

Munir Niazi Poetry

اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

Munir Niazi Poetry

چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو

Munir Niazi Poetry

خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا

Munir Niazi Poetry

وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے

Munir Niazi Poetry

شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

Munir Niazi Poetry

اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا

Munir Niazi Poetry

تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں

Munir Niazi Poetry

وہ جس کو میں سمجھتا رہا کامیاب دن
وہ دن تھا میری عمر کا سب سے خراب دن

Munir Niazi Poetry

کوئی تو ہے منیرؔ جسے فکر ہے مری
یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے

Munir Niazi Poetry

Munir Niazi poetry Images

کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا

Munir Niazi Poetry

آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

Munir Niazi Poetry

پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی

Munir Niazi Poetry

کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیرؔ
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو

Munir Niazi Poetry

میں تو منیرؔ آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

Munir Niazi Poetry

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

Munir Niazi Poetry

کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیرؔ
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی

Munir Niazi Poetry

منیرؔ اچھا نہیں لگتا یہ تیرا
کسی کے ہجر میں بیمار ہونا

Munir Niazi Poetry

کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو

Munir Niazi Poetry

تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا

Munir Niazi Poetry

جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

Munir Niazi Poetry

میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں
مزا تو سارا اسی رسم کے نباہ میں تھا

Munir Niazi Poetry

مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں

Munir Niazi Poetry

نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

Munir Niazi Poetry

کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا

Munir Niazi Poetry

کتنے یار ہیں پھر بھی منیرؔ اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے سے اپنا جی بہلاتا ہے

Munir Niazi Poetry

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

Munir Niazi Poetry

ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے

Munir Niazi Poetry

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

Munir Niazi Poetry

منیرؔ اس خوب صورت زندگی کو
ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے

Munir Niazi Poetry

تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

Munir Niazi Poetry

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

Munir Niazi Poetry

ہے منیرؔ تیری نگاہ میں
کوئی بات گہرے ملال کی

Munir Niazi Poetry

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

Munir Niazi Poetry

غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا

Munir Niazi Poetry

لیے پھرا جو مجھے در بہ در زمانے میں
خیال تجھ کو دل بے قرار کس کا تھا

Munir Niazi Poetry

رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی

Munir Niazi Poetry

ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا

Munir Niazi Poetry

گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے

Munir Niazi Poetry

وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو

Munir Niazi Poetry

یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیرؔ
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں

Munir Niazi Poetry

زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا

Munir Niazi Poetry

جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا

Munir Niazi Poetry

دیکھے ہوئے سے لگتے ہیں رستے مکاں مکیں
جس شہر میں بھٹک کے جدھر جائے آدمی

Munir Niazi Poetry

لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

Munir Niazi Poetry

چمک زر کی اسے آخر مکان خاک میں لائی
بنایا سانپ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ

Munir Niazi Poetry

کھڑا ہوں زیر فلک گنبد صدا میں منیرؔ
کہ جیسے ہاتھ اٹھا ہو کوئی دعا کے لیے

Munir Niazi Poetry

دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا

Munir Niazi Poetry

اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہئے

Munir Niazi Poetry

بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ

Munir Niazi Poetry

ہوں مکاں میں بند جیسے امتحاں میں آدمی
سختیٔ دیوار و در ہے جھیلتا جاتا ہوں میں

Munir Niazi Poetry

قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا

 

 

مکان زر لب گویا حد سپہر و زمیں
دکھائی دیتا ہے سب کچھ یہاں خدا کے سوا

کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت

شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

کیوں منیرؔ اپنی تباہی کا یہ کیسا شکوہ
جتنا تقدیر میں لکھا ہے ادا ہوتا ہے

شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا

Munir Niazi Poetry

میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں

Munir Niazi Poetry

مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے

Munir Niazi Poetry

اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا

Munir Niazi Poetry

اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا

اچھی مثال بنتیں ظاہر اگر وہ ہوتیں
ان نیکیوں کو ہم تو دریا میں ڈال آئے

Munir Niazi Poetry

دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف
یاد پیچھے کھینچتی ہے آس آگے کی طرف

یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

یہ نماز عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی

ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

اس کو بھی تو جا کر دیکھو اس کا حال بھی مجھ سا ہے
چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مر جاتا ہے

وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اسے اس خوف میں داخل نہ ہو

تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر گئی
دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے

زمیں کے گرد بھی پانی زمیں کی تہہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو

 

ہم بھی منیرؔ اب دنیا داری کر کے وقت گزاریں گے
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں

میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا

اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا

ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں

 

میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا

آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں درد دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذ کو رنگیلا کر گئی

چاند چڑھتا دیکھنا بے حد سمندر پر منیرؔ
دیکھنا پھر بحر کو اس کی کشش سے جاگتا

جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی

بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجر یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے

جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا
اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی

اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا

مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی سوچا بلا لیا اسے جو بھی چاہا بنا دیا

گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا

جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں

رات اک اجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اٹھے بام و در میری صدا کے سامنے

یہ میرے گرد تماشا ہے آنکھ کھلنے تک
میں خواب میں تو ہوں لیکن خیال بھی ہے مجھے

اب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک ہیں اب ساری ذاتیں ایک سی

تو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکس دیوار کے بدلتے ہی

امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہت
رنج کھینچے ہم نے اپنی لا مکانی میں بہت

سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں

مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں
رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی

دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں

زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی

وہ جو میرے پاس سے ہو کر کسی کے گھر گیا
ریشمی ملبوس کی خوشبو سے جادو کر گیا

ہے منیرؔ حیرت مستقل
میں کھڑا ہوں ایسے مقام پر

خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا

ایک دشت لا مکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں

شاید کوئی دیکھنے والا ہو جائے حیران
کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ

تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیرؔ
وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *