کچھوا اور خرگوش کی کہانی
ایک سرسبز و شاداب جنگل میں کچھوا اور خرگوش رہا کرتے تھے۔ خرگوش اپنی تیز دوڑنے کی صلاحیت کے باعث پورے جنگل میں مشہور تھا۔ اُس کا تیز رفتار دوڑنا اور چھلانگیں مارنا جنگل کے تمام جانوروں کو حیرت میں ڈال دیتا۔ دوسری طرف کچھوا دھیرے دھیرے چلنے والا، ٹھنڈے مزاج کا مالک اور کسی قسم کی جلد بازی میں یقین نہ رکھنے والا تھا۔ جنگل کے دوسرے جانور بھی اُس کی اسی خصوصیت سے واقف تھے اور ہمیشہ اُس کے صبر کی تعریف کرتے۔
ایک لالچی کتے کی کہانی ضرور پڑھیں
ایک دن خرگوش اور کچھوا پانی کے تالاب کے کنارے بیٹھے تھے۔ اچانک خرگوش نے کچھوے سے مذاقاً کہا، “کچھوے بھائی! تم تو بہت آہستہ چلتے ہو۔ اگر کبھی دوڑنے کا مقابلہ ہوتا، تو کیا خیال ہے، کیا تم میرے ساتھ دوڑ سکتے ہو؟”
کچھوا مسکرایا اور نرمی سے بولا، “ہاں، خرگوش بھائی، میں دوڑ میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوں۔”
خرگوش نے ہنستے ہوئے کہا، “یہ مزاق ہے یا واقعی مقابلہ کرنا چاہتے ہو؟ تمھیں پتہ بھی ہے کہ میں کتنی تیز دوڑ سکتا ہوں!”
کچھوا سنجیدگی سے بولا، “خرگوش بھائی، میں جانتا ہوں کہ تم تیز ہو، لیکن اگر مجھے اپنے طریقے سے چلنے کا موقع ملے، تو شاید کچھ حیران کن ہو جائے۔”
خرگوش نے کچھوے کی بات کو مذاق میں لیا اور فوراً ہی ایک دوڑ کا منصوبہ بنا لیا۔ اگلے دن جنگل کے تمام جانور اس دلچسپ دوڑ کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے۔ سب جانور یہ دیکھنے کے لئے بے چین تھے کہ کیا یہ مقابلہ کچھوے کے لیے بہت مشکل ہوگا یا خرگوش اُسے باآسانی شکست دے گا۔
دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تیزی سے آگے بڑھا اور کچھوا اپنے مخصوص دھیمے انداز میں، آرام سے قدم بڑھاتا رہا۔ خرگوش کچھ فاصلے پر پہنچ کر رُک گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کچھوا بہت پیچھے تھا۔ خرگوش نے سوچا، “کچھوا تو ابھی کہیں پیچھے ہی ہے۔ میرے پاس کافی وقت ہے، کیوں نہ کچھ دیر آرام کر لوں؟” اور وہ ایک درخت کے نیچے آرام سے لیٹ گیا۔
کچھوا اپنی رفتار سے دھیرے دھیرے، مگر مستقل مزاجی سے آگے بڑھتا رہا۔ وہ نہ تو تھکا، نہ رُکا، بلکہ اپنی کوشش جاری رکھی۔ وقت گزرتا گیا اور کچھوا خرگوش کے قریب پہنچ گیا۔ خرگوش کو نیند آگئی اور وہ بے فکری کے ساتھ سو گیا۔ کچھوا آہستہ آہستہ اُس کے پاس سے گزرا اور اُسے جگانے کی کوشش بھی نہ کی۔
کچھ وقت بعد، جب خرگوش جاگا تو اُس نے دیکھا کہ کچھوا اُس سے آگے جا چکا ہے اور فنش لائن کے قریب ہے۔ یہ دیکھ کر خرگوش جلدی سے دوڑنے لگا، لیکن کچھ دیر بعد اُسے معلوم ہوا کہ کچھوا اُس سے پہلے ہی فنش لائن تک پہنچ چکا ہے۔
خرگوش کو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ رفتار ہی سب کچھ نہیں ہوتی، بلکہ مستقل مزاجی، صبر اور مستقل جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھنا اصل کامیابی ہے۔ کچھوا جیت چکا تھا اور خرگوش نے اُس کی جیت کو تسلیم کر لیا۔ اس دوڑ سے سب جانوروں نے یہ سبق سیکھا کہ کامیابی میں صبر، مستقل مزاجی اور دلجمعی بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی کہ رفتار۔
سبقMoral of Story
اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی میں کبھی بھی اپنی صلاحیتوں پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے اور ہمیشہ مستقل مزاجی اور صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔