allama iqbal essay in urdu

Allama Iqbal Essay in Urdu – علامہ اقبال پر مکمل مضمون

یہ دنیا مختلف اور متنوع پہلوؤں کا مجموعہ ہے۔ اس جہان رنگ و بو میں ایسی شخصیات بھی آئیں جو آسمان شہرت پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکیں اور شہرت دوام پا کر رخصت ہوئیں۔ اٹھی شخصیات میں سے ایک کو ہم علامہ اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور ایمان افروز پیغامات سے مسلمانان ہند کو بالخصوص اور مسلمانانِ عالم کو بالعموم، خواب غفلت سے جگا کر تصور پاکستان پیش کیا۔ تخلیق ارضِ پاک در اصل انھیں کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

ابتدائی زندگی

علامہ اقبالؒ 9 نومبر ۱۸۷۷ء کو شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد نہایت متقی اور پرہیز گار انسان تھے ۔ آپ کی والدہ امام بی بی بھی بہت پر ہیز گار تھیں ۔ آپ کی ابتدائی تربیت ایک دینی مدرسے سے ہوئی۔ جس کے بعد آپ سیالکوٹ کے مشن ہائی سکول میں داخل ہو گئے ، جہاں آپ کو سید میر حسن جیسے فاضل اور مشفق استاد ملے۔ انھوں نے آپ کی دینی تربیت کی اور آپ میں مذہبی ذوق پیدا کیا۔

تعلیم

آپ نے میٹرک کا امتحان مشن ہائی سکول سے پاس کیا اور پھر مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہو گئے، جہاں آپ نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور بی۔ اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پنجاب بھر میں اول آئے ۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں آپ کو پروفیسر آرنلڈ جیسے استاد سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔

ایم۔ اے کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ اور نیٹل کالج اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر رہے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1905ء میں انگلستان روانہ ہو گئے۔ وہاں پر کیمبرج یونی ورسٹی سے بارایٹ لاکی ڈگری حاصل کی اور پھر جرمنی کی میونخ یونی ورسٹی سے پی ۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے آپ 1908ء میں وطن واپس آگئے۔

پروفیسر آرنلڈ سے تعلق

علامہ اقبال کو اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ سے بے پناہ محبت تھی ۔ قیام انگلستان کے دوران میں آپ نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ شعر نہیں کہیں گے مگر پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر آپ نے شعر کہنا جاری رکھا۔ جب آپ کو پروفیسر آرنلڈ کے انتقال کی خبر ملی تو بے ساختہ آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے : آہ، آج اقبال اپنے ایک عظیم دوست اور مشفق استاد سے محروم ہو گیا“

دلچسپ واقعات

علامہ اقبال ابتدا ہی سے بہت سی انفرادی خوبیوں کے مالک تھے۔ ایک مرتبہ مدرسے میں دیر سے پہنچے۔ استاد صاحب نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا:
اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے”
شاگرد کی اس حاضر کر دیا۔

اسی طرح ایک اور موقع پر سید میر حسن کے فرزند جس کا نام ” احسان تھا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے استاد صاحب کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ بوجھ کی وجہ سے تھک گئے اور کچھ دیرستانے کو رک گئے ۔ استاد نے رک جانے کی وجہ دریافت کی تو بولے :
آپ کا احسان مجھ پر بھاری ہے“ استاد صاحب نے یہ سن کر اپنے بیٹے کو پیدل چلنے کا حکم دے دیا۔

تنظیمی و سماجی خدمات

علامہ اقبال انجمن حمایت اسلام کے صدر رہے اور
بڑی خوبی سے اس کے اداروں کو چلاتے رہے۔ علاوہ ازیں آپ پنجاب لیجسلیٹو ایسوسی ایشن کے رکن اور پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ شاعری کی وجہ سے آپ کی شہرت ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کر کے سمندر پار تک پہنچ گئی ۔ قوم نے آپ کو شاعر مشرق اور ترجمان حقیقت“ کے خطابات سے نوازا۔ انگریز حکومت نے آپ کو سر“ کا خطاب دیا اور ریاست بھوپال
سے آپ کے لیے 500 روپے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا۔

خطاب الہ آباد اور تصور پاکستان

اجلاس منعقدہ 1930ء میں آپ نے فرمایا: ہندوستان ایک نیک نہیں بلکہ برصغیر ہے۔ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے
رہتے ہیں۔ مسلمان اپنا ایک الگ تشوس چاہتے ہیں” علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے پاکستان بنانے کی تجویز دی۔ ہندوؤں نے اسے “مجذوب کی بڑ“ قرار دیا۔ مگر قائد اعظم نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔

شاعری کی ابتدا

علامہ اقبال نے طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر کہنا شروع کر دیے تھے اور لاہور کی ادبی محفلوں میں شامل ہو کہ داد تحسین وصول کرنے لگے۔ ان کی ابتدائی غزل کا یہ شعر بہت چونکا، بینے والا تھا۔ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

شاعری کے تین ادوار

علامہ اقبال نے اس دور کے عظیم غزل گو مرزا داغ کی شاگردی اختیار کی اور داغ کے رنگ میں بہت سی غزلیں کہیں۔ بعد میں جب انھیں انجمن حمایت اسلام کی جانب سے قومی اور ملی موضوعات پر نظم کہنے کا موقع ملا، تو وہ نظم گوئی کی طرف مائل ہو گئے۔ اقبال کی شاعری در حقیقت تین ادوار پر مشتمل ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا دور 1901 ء سے لے کر 1905 ء تک کا ہے۔ اس دور میں اقبال ایک وطن پرست اور فطرت کے شاعر کے طور پر نمایاں ہوئے ہیں۔ قدرت کے سربستہ رازوں اور اہل وطن کے لیے تڑپ ان کی شاعری میں نظر آتی ہے۔ اس دور کی شاعری میں وہ فطرت کے دل دادہ نظر آتے ہیں۔

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور 1905ء سے 1908 ء کا ہے، جب وہ یورپ میں تعلیم کے لیے موجود تھے۔ انھوں نے یورپ کی تہذیب کا گہرا مشاہدہ
کیا اور کہا کہ یورپ کی بے خدا تہذیب انسانوں کے روحانی اور اخلاقی زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ ان عوامل سے بھی
خوفزدہ تھے جو ملت اسلامیہ کو اس تہذیب کے اپنانے سے پیش آسکتے تھے۔ اس دور کی شاعری میں اقبال نے تلقین کی کہ مسلمان اس تہذیب سے دور ر ہیں کیوں کہ یورپ کی کھوکھلی تہذیب ایک روز اپنے ہی خنجر سے خود کشی کر لے گی۔

اقبال کے تیسرے دور کی شاعری 1908ء کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس دور میں شاعر ایک پیغام بر کا روپ دھار لیتا ہے۔ شکوک پر یقین غالب آجاتا ہے اور شاعری نہیں رہتی بلکہ ساحری بن جاتی ہے۔ تیسرے دور کی شاعری ہی درحقیقت وہ شاعری ہے۔ جس کی بدولت اقبال شاعر مشرق حکیم الامت کا خطاب پاتے ہیں۔

فکری مباحث اور شاعری کا اسلوب

اس دور کی شاعری میں شاعرانہ فکر، داعیانہ جوش اور دردمندانہ تڑپ نظر آتی ہے۔ اقبال قادر الکلام شاعر ہیں۔ انھیں اپنے بیان پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری میں تشبیہات، استعارات اور تراکیب کا بہترین استعمال کیا ہے۔ جدت تراکیب کے وہ گویا بادشاہ ہیں، رمز تو ان کے کلام کا خاصہ ہے۔

عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مرجاتا نہیں
روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں

اقبال کا پیغام اور رجائیت

علامہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اسی شاعری میں بلا کا سوز و گداز اور رنج والم موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مایوسی اور قنوطیت کی بجائے رجائیت کے علم بردار ہیں۔ ان کے کلام میں کشاکشِ حیات سے نبرد آزما ہونے اور مشکلات پر قابو پانے اور غلبہ پا جانے کی تلقین ہے اور قاری خود کو ان کی شاعری کے اثر میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

اقبال کا فلسفہ عمل

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

غزل میں جدت

علامہ اقبال نے اپنے منفرد انداز سے غزل جیسی پامال صنف سخن کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ انھوں نے غزل کی یاس آمیزی کو حیات پرور اور حیات آفرین بنایا اور اس کو نرمی و نزاکت کے دائرے سے نکال کر جوش، دلولہ اور توانائی عطا کی۔

شاہین کی علامت

کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

رسول ﷺ سے عشق

کبھی حضرت اویس قرنی کا قصہ چھیڑ کر جب رسول صلى الله عليه وسلم کا درس دیتے ہیں۔ آپ ایک بچے عاشق رسول میلے تھے۔ حضور اکرم خاتم انہیں محمد رسول اللہ اللہ کے عشق میں اقبال کی آنکھیں ہمیشہ پر نم رہتی تھیں۔ جیسا کہ فرمایا: قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمد ع سے اجالا کردے

ملت اسلامیہ سے محبت

اقبال ہمیشہ اس بات کے آرزومند رہے کہ وہ ملت اسلامیہ کے بھٹکتے ہوئے راہی کو پھر سوئے حرم لے کے چلنے میں کامیاب ہو جائیں۔

خودی کا تصور

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

یورپ پر تنقید

ے اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

عمل کی دعوت

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خا کی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اتحاد و یگانگت

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

کتابیں اور تصانیف

اقبال نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں بانگ درا” پیام مشرق زبور عجم ، جاوید نامہ مضرب کلیم وغیرہ مشہور ہیں۔

وصال

علامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو خالق حقیقی سے جاملے اور بادشاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ میں دفن ہوئے۔ آج بھی بہت سے لوگ وہاں فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں اور یوم اقبال کے موقع پر وہاں پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ ے آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرکے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرےبھی بہت سے لوگ وہاں فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں اور یوم اقبال کے موقع پر وہاں پھول چڑھائے جاتے ہیں۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *